درد جگر خود اپنی دوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
یوں ہی کتاب زر میں لکھا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
ہجر کی رات میں شمع شبستاں حد سے بڑھ کر روشن تھی
اس ہنگام میں دل بھی جلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
روز ازل جو عہد کیا تھا انساں نے وہ سچ ہی تھا
بار امانت اٹھ نہ سکا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
کہاں نشیمن دل کا بنائیں الجھن بھی ہے اور ڈر بھی
خود ہی شکستہ شاخ وفا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
حرف وفا کی کوئی وقعت دنیا کی نظروں میں نہیں
حرف وفا ہی جھوٹ کہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
حسن و عشق کی لاگ میں آخر کس کو مجرم ٹھہرائیں
دل کا دامن چاک ہوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
بحر تمنا سے راہیؔ آئی ہے صدائے غرقابی
دل کا سفینہ ڈوب رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

غزل
درد جگر خود اپنی دوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
سید نواب حیدر نقوی راہی