درد غم فراق سے آنکھیں ہیں اشک بار کیا
رونے سے ہوگی مختصر زحمت انتظار کیا
زخموں سے چور جو نہ ہو سینۂ داغ دار کیا
جس میں نہ ہو ہجوم گل کہئے اسے بہار کیا
جس نے جلا کے دل مرا ہجر کی شب مٹا دیا
شمعیں جلانے آیا ہے اب وہ سر مزار کیا
اٹھ گئی جس طرف نظر حشر سا اک بپا ہوا
ان کی نگاہ ناز ہے فتنۂ روزگار کیا
مٹ کے بھی اس کی جستجو ہے جو جہاں میں چار سو
لے گا کسی جگہ قرار اڑتا ہوا غبار کیا
ہو چکی ختم شام غم آنکھوں میں آ چکا ہے دم
اب بھی مریض ہجر کو ان کا ہے انتظار کیا
جرم وفا سے عندلیب گل کی نظر میں تھی ذلیل
کانٹوں کے بھی نگاہ میں ہونا پڑے گا خوار کیا
کوشش ضبط لاکھ کی پھر بھی نہ اشک تھم سکے
جبر نہ دل پہ ہو سکا ایسا بھی اختیار کیا
ان کی نظر کے ساتھ ہی سارا زمانہ پھر گیا
گردش چشم ناز ہے گردش روزگار کیا
باد خزاں کی موج تھی غنچۂ دل کے حق میں سم
موسم گل کی بھی ہوا ہوگی نہ سازگار کیا
شعلہؔ تفتہ دل مجھے آتش عشق سے ہے کام
میری نظر میں طور کی برق شرارہ بار کیا

غزل
درد غم فراق سے آنکھیں ہیں اشک بار کیا
شعلہ کراروی