درد فرقت کو کیا کرے کوئی
ہائے عادت کو کیا کرے کوئی
دل کی حسرت کو کیا کرے کوئی
اس مصیبت کو کیا کرے کوئی
پیار کرنے سے عار ہے تو کہو
اچھی صورت کو کیا کرے کوئی
دوستوں کو تو روکوں شوخی سے
ساری خلقت کو کیا کرے کوئی
چشم و دل سے چھپاؤں درد نہاں
رنگ صورت کو کیا کرے کوئی
اپنے دل کا تو خون کر ڈالوں
ان کی صورت کو کیا کرے کوئی
ان کا فرمان ہے کہ آہ و فغاں
ما بدولت کو کیا کرے کوئی
ناصحوں کو سلام بھی کر لوں
اس نصیحت کو کیا کرے کوئی
آرزو ہے تو خوف بھی کچھ ہے
پاک نیت کو کیا کرے کوئی
تجھ میں جو بات چاہیے وہ نہیں
لے کے صورت کو کیا کرے کوئی
وہ خفا ہوں تو میں خطا کر لوں
چھیڑ حجت کو کیا کرے کوئی
مہرباں ہیں جناب دل اس پر
ایسے حضرت کو کیا کرے کوئی
میری تقریر میں تو ہے تاثیر
تیری صحبت کو کیا کرے کوئی
نام بھی ان کا ہم نہیں لیتے
اب شرارت کو کیا کرے کوئی
اے صفیؔ وہ بگڑ گئے من کر
تیری قسمت کو کیا کرے کوئی

غزل
درد فرقت کو کیا کرے کوئی
صفی اورنگ آبادی