درد دل زخم جگر کا راز داں کوئی نہیں
واقف اسرار غم آزار جاں کوئی نہیں
پاس جس کے کچھ نہیں مال و متاع بے بہا
اس کو کیا غم کہ محافظ پاسباں کوئی نہیں
کیا سلوک ہم سایے کا بتلائے اک خانہ بدوش
بے در و دیوار سا جس کا مکاں کوئی نہیں
داد کے لائق امیر شہر ہی کی ذات ہے
کیونکہ اب فٹ پاتھ پر بھی بے اماں کوئی نہیں
خانۂ دل تک مرے کوئی گیا تو ہے ضرور
نقش پا کا چھوڑا ہے لیکن نشاں کوئی نہیں
روز کچھ ایسے گزرتے اس جہاں سے ہیں ضرور
ہائے جس کا رونے والا نوحہ خواں کوئی نہیں
آبرو اللہ نے خوشترؔ جبیں کی رکھی ہے
جس کا اس در کے سوا ہے آستاں کوئی نہیں
غزل
درد دل زخم جگر کا راز داں کوئی نہیں
منصور خوشتر