درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
ہم کو منظور ہے اے دیدۂ وحدت آگیں
ایک غنچہ میں تماشائے گلستاں ہونا
جس طرح خم کسی جام کا ٹکڑا نکلے
یوں ہی گردوں سے مہ نو کا نمایاں ہونا
سر میں سودا نہ رہا پاؤں بیڑی نہ رہی
میری تقدیر میں تھا بے سر و ساماں ہونا
صفحۂ دہر میں مہر ید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودے سے نمایاں ہونا
ہو بیاض سحر نور پہ دل کیا مائل
یاد ہے دفتر انجم کا پریشاں ہونا
کل بھی وہ کل جو ہے فردائے قیامت زاہد
اور پھر اس کے لئے آج پریشاں ہونا
پاؤں زنجیر کے مشتاق ہیں اے جوش جنوں
ہے مگر شرط ترا سلسلہ جنباں ہونا
گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستار غریباں ہونا
ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا
غزل
درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا
چکبست برج نرائن