درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
آہ منت کش اثر نہ ہوئی
اپنی تقدیر راہ پر نہ ہوئی
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
جرم الفت سے جھک گئیں آنکھیں
چار ان سے مری نظر نہ ہوئی
نزع میں وہ نہ آئے بالیں پر
موت بھی میری معتبر نہ ہوئی
دیکھتے ہیں سبھی نظر ان کی
اور اپنی نظر نظر نہ ہوئی
یوں تمنا کے پھول مرجھائے
شاخ امید بارور نہ ہوئی
ان سے ملنے کی آرزو پوری
حشر سے وہ بھی پیشتر نہ ہوئی
ہجر کی شب مریض فرقت نے
جان دے دی مگر سحر نہ ہوئی
ایسے جینے سے موت بہتر ہے
زندگی زندگی اگر نہ ہوئی
سیکڑوں انقلاب آئے مگر
دل کی دنیا ادھر ادھر نہ ہوئی
لاکھ سائنس نے ترقی کی
دسترس موت پر مگر نہ ہوئی
کیا کریں شرح حال دل شعلہؔ
غم کی روداد مختصر نہ ہوئی
غزل
درد دل کی انہیں خبر نہ ہوئی
شعلہ کراروی