درد دل کی دوا نہ ہو جائے
زندگی بے مزا نہ ہو جائے
لطف دیتی ہے کیا امید وفا
بے وفا با وفا نہ ہو جائے
کیسے بیتاب ان کو دیکھوں گا
آہ یا رب رسا نہ ہو جائے
دل میں حسرت بسا تو لی ہے مگر
یہ کڑی سلسلہ نہ ہو جائے
اپنی دنیا اسی سے روشن ہے
گل چراغ وفا نہ ہو جائے
ہم ستم کو کرم سمجھتے ہیں
ان پہ یہ راز وا نہ ہو جائے
اک زمانہ ہے اس کا دیوانہ
کہیں وہ بت خدا نہ ہو جائے
دل ہی سب سے بڑا سہارا ہے
دل کسی سے جدا نہ ہو جائے
تم اگر چھو لو اپنے ہونٹوں سے
شعر میرا ترا نہ ہو جائے
دل لٹا کر جگرؔ ہماری طرح
کوئی بے آسرا نہ ہو جائے

غزل
درد دل کی دوا نہ ہو جائے
جگر جالندھری