EN हिंदी
درد دل کے لیے کچھ ایسی دوا لی ہم نے | شیح شیری
dard-e-dil ke liye kuchh aisi dawa li humne

غزل

درد دل کے لیے کچھ ایسی دوا لی ہم نے

ستیہ نند جاوا

;

درد دل کے لیے کچھ ایسی دوا لی ہم نے
ٹیس گر کم بھی ہوئی اور بڑھا لی ہم نے

اپنے اشکوں کو تبسم سے چھپایا جیسے
جسم عریاں تھا تو پارینہ قبا لی ہم نے

عمر بھر شہر نگاراں میں وفا کو ترسے
اپنی ناکردہ گناہی کی سزا لی ہم نے

چیختے لمحوں سے اندر کا نہ رشتہ ٹوٹا
ورنہ باہر کی تو خاموش فضا لی ہم نے

ایک محشر سا بپا تھا کئی آوازوں کا
بولنا چاہا تو مانگے کی صدا لی ہم نے