درد دل کے لیے کچھ ایسی دوا لی ہم نے
ٹیس گر کم بھی ہوئی اور بڑھا لی ہم نے
اپنے اشکوں کو تبسم سے چھپایا جیسے
جسم عریاں تھا تو پارینہ قبا لی ہم نے
عمر بھر شہر نگاراں میں وفا کو ترسے
اپنی ناکردہ گناہی کی سزا لی ہم نے
چیختے لمحوں سے اندر کا نہ رشتہ ٹوٹا
ورنہ باہر کی تو خاموش فضا لی ہم نے
ایک محشر سا بپا تھا کئی آوازوں کا
بولنا چاہا تو مانگے کی صدا لی ہم نے
غزل
درد دل کے لیے کچھ ایسی دوا لی ہم نے
ستیہ نند جاوا