درد عالم بھی کہیں درد محبت ہی نہ ہو
دل کے بہلانے کی یہ بھی کوئی صورت ہی نہ ہو
آج تزئین جمال ایک فسانہ ہی سہی
کل یہ مشاطگئی حسن حقیقت ہی نہ ہو
ان کی آنکھوں میں مچلتا ہے جو افسانۂ شوق
سوچتا ہوں کہیں وہ میری حکایت ہی نہ ہو
بے رخی پر جسے محمول کیا کرتا ہوں
وہ بھی کچھ آپ کا انداز محبت ہی نہ ہو
آج خود حسن کو دیکھا ہے سر کوچۂ عشق
دیکھیں آغاز کوئی تازہ روایت ہی نہ ہو
عقل بھی اب رسن و دار تک آ پہنچی ہے
طفلک شوق کی اک یہ بھی شرارت ہی نہ ہو
غزل
درد عالم بھی کہیں درد محبت ہی نہ ہو
مظہر امام