درد دل میں مگر لب پہ مسکان ہے
حوصلوں کی ہمارے یہ پہچان ہے
لاکھ کوشش کرو آ کے جاتی نہیں
یاد اک بن بلائی سی مہمان ہے
کھلکھلاتا ہے جو آج کے دور میں
اک عجوبے سے کیا کم وہ انسان ہے
زر زمیں سلطنت سے ہی ہوتا نہیں
جو دے بھوکے کو روٹی، وہ سلطان ہے
میر، تلسی، ظفر، جوش، میرا، کبیر
دل ہی غالبؔ ہے اور دل ہی رسخان ہے
پانچ کرتا ہے جو، دو میں دو جوڑ کر
آج کل صرف اس کا ہی گن گان ہے
ڈھونڈتا پھر رہا پھول پر تتلیاں
شہر میں وہ نیا ہے کہ نادان ہے
گر نہ سمجھا تو نیرجؔ لگے گی کٹھن
زندگی کو جو سمجھا تو آسان ہے
غزل
درد دل میں مگر لب پہ مسکان ہے
نیرج گوسوامی