درد اوروں کا دل میں گر رکھئے
بے غرض ہو کے عمر بھر رکھئے
ہو ہی جائیں گی مشکلیں آسان
عقل سا ایک راہبر رکھئے
پاؤں ٹھہریں خیال چلتے رہیں
ایک ایسا بھی تو سفر رکھئے
اس کے دم سے ہے آبرو کا وجود
اپنے کردار پر نظر رکھئے
ہو اشارہ کہ بہہ سکے نہ ہوا
آنکھ میں اتنا تو اثر رکھئے
دوستی میں ہے شرط یہ درویشؔ
ذکر میں تو کا طاق پر رکھئے
غزل
درد اوروں کا دل میں گر رکھئے
درویش بھارتی