EN हिंदी
درختوں سے جدا ہوتے ہوئے پتے اگر بولیں | شیح شیری
daraKHton se juda hote hue patte agar bolen

غزل

درختوں سے جدا ہوتے ہوئے پتے اگر بولیں

خالد شریف

;

درختوں سے جدا ہوتے ہوئے پتے اگر بولیں
تو جانے کتنے بھولے بسرے افسانوں کے در کھولیں

اکٹھے بیٹھ کر باتیں نہ پھر شاید میسر ہوں
چلو ان آخری لمحوں میں جی بھر کر ہنسیں بولیں

ہوا میں بس گئی ہے پھر کسی کے جسم کی خوشبو
خیالوں کے پرندے پھر کہیں اڑنے کو پر تولیں

جہاں تھے متفق سب اپنے بیگانے ڈبونے کو
اسی ساحل پہ آج اپنی انا کی سیپیاں رولیں

بھنور نے جن کو لا پھینکا تھا اس بے رحم ساحل پر
ہوائیں آج پھر ان کشتیوں کے بادباں کھولیں

نہ کوئی روکنے والا نہ کوئی ٹوکنے والا
اکیلے آئنے کے سامنے ہنس لیں کبھی رولیں