دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا
بخیل شہر تھا حاجت روا کہیں نہ ملا
فصیل شب پہ سحر کا دیا جلاتا کون
کہ کوئی شخص مجھے جاگتا کہیں نہ ملا
لہو کی آگ تھی روشن ہر اک ہتھیلی پر
کسی بھی ہاتھ پہ رنگ حنا کہیں نہ ملا
گرا خود اپنی نظر سے تو پوچھتا پھر کون
خودی گنوائی تو مجھ کو خدا کہیں نہ ملا
سبھی تھے اپنے خداؤں سے بد گماں شاید
کسی زبان پہ حرف دعا کہیں نہ ملا

غزل
دراز دست کو دست عطا کہیں نہ ملا
جمیل قریشی