ڈرانے والا سن کر ڈر رہا ہے
ہتھیلی پر ہمارا سر رہا ہے
جلا دے گا اگر روکا گیا تو
ابھی لاوا سفر طے کر رہا ہے
دعا دی تھی جسے جینے کی تم نے
دعا مر مر کے پوری کر رہا ہے
وو جس بستی میں دکھتا ہے دھواں سا
اسی بستی میں میرا گھر رہا ہے
ترا محبوب وو ہونے سے پہلے
ہمارے ساتھ بھی اکثر رہا ہے

غزل
ڈرانے والا سن کر ڈر رہا ہے
آیوش چراغ