ڈرائے گی بھلا کیا تیری گردش آسماں مجھ کو
ملا رب سے دعائے فاطمہ کا سائباں مجھ کو
چلی ہے چھوڑ کر تو کیوں بہار گلستاں مجھ کو
خدا جانے کہاں لے جائے اب باد خزاں مجھ کو
میں شکر رب کا قائل ہوں ہوا کیسی ہی چلتی ہو
پتہ آسانیوں کا دے گئیں ہیں سختیاں مجھ کو
جلا دوں گا حصول منزل مقصود کی خاطر
جلانی پڑ گئیں گر ساری اپنی کشتیاں مجھ کو
نہ شمع انجمن میں ہوں نہ پروانوں کا میلہ ہے
کہاں تھا میں کہاں لے آئی ہے عمر رواں مجھ کو
سنا ہے سب بھلا بیٹھے عدیلؔ دل شکستہ کو
نہ جانے آ رہی ہیں شام سے کیوں ہچکیاں مجھ کو
غزل
ڈرائے گی بھلا کیا تیری گردش آسماں مجھ کو
عدیل زیدی