EN हिंदी
ڈرا کے موج و تلاطم سے ہم نشینوں کو | شیح شیری
Dara ke mauj o talatum se ham-nashinon ko

غزل

ڈرا کے موج و تلاطم سے ہم نشینوں کو

مجروح سلطانپوری

;

ڈرا کے موج و تلاطم سے ہم نشینوں کو
یہی تو ہیں جو ڈبویا کئے سفینوں کو

شراب ہو ہی گئی ہے بقدر پیمانہ
بہ عزم ترک نچوڑا جب آستینوں کو

جمال صبح دیا روئے نو بہار دیا
مری نگاہ بھی دیتا خدا حسینوں کو

ہماری راہ میں آئے ہزار مے خانے
بھلا سکے نہ مگر ہوش کے قرینوں کو

کبھی نظر بھی اٹھائی نہ سوئے بادۂ ناب
کبھی چڑھا گئے پگھلا کے آبگینوں کو

یہی جہاں ہے جہنم یہی جہاں فردوس
بتاؤ عالم بالا کے سیربینوں کو

ہوئے ہیں قافلے ظلمت کی وادیوں میں رواں
چراغ راہ کئے خوں چکاں جبینوں کو

تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروحؔ
چل اپنی راہ بھٹکنے دے نکتہ چینوں کو