در تخیل کے مقفل نہیں ہونے دیتا
میں تجھے آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
نیند آتی ہے تو آنکھوں میں جگہ دیتا ہوں
اپنی پلکوں کو میں بوجھل نہیں ہونے دیتا
کس کو سیراب کرے گا وہ چھلکتا بادل
جو مری پیاس کو جل تھل نہیں ہونے دیتا
چھین لیتا ہے مصور کے سبھی ہوش و حواس
حسن تصویر مکمل نہیں ہونے دیتا
کس کو افلاس نے رکھا ہے شگفتہ خاطر
یہ تو بچوں کو بھی چنچل نہیں ہونے دیتا
کوئی کاندھے پہ مرے ہاتھ دھرے ہے مہتابؔ
یہ تخیل مجھے پاگل نہیں ہونے دیتا
غزل
در تخیل کے مقفل نہیں ہونے دیتا
مہتاب عالم