ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں
بے سبب بات کو بڑھا رہا ہوں
اس کی خوشبو پہن رہا ہوں کبھی
کبھی آواز میں نہا رہا ہوں
پھول تک اس کو دے نہیں سکتا
پھر ہرے باغ کیوں دکھا رہا ہوں
کر رہا ہوں میں بات ایک سے اور
دوسرے شخص کو سنا رہا ہوں
بے تحاشا دکھائی دے وہ مجھے
ہر طرف آئنے لگا رہا ہوں
میں بہت خود پسند ہوں لیکن
اس کے کہنے پہ مسکرا رہا ہوں
تم کسی دور میں پری رہی ہو
آج بچوں کو سب بتا رہا ہوں
کاش وہ بھی کبھی بتائے کہ میں
اس کو شدت سے یاد آ رہا ہوں

غزل
ڈر رہا ہوں نہ خوف کھا رہا ہوں
وسیم تاشف