در پہ تیرے جو سر جھکا لوں گا
اس جہاں میں سکون پا لوں گا
چاہے کردار تم نیا لینا
میں تو میلے سے آئنا لوں گا
پھر نہ دستک سے نیند ٹوٹے گی
آج دروازہ توڑ ڈالوں گا
کچھ بھی مانگے کوئی دعاؤں میں
میں مسافر ہوں راستا لوں گا
آگ تو آگ ہے جلائے گی
اشک بھی اشک ہے بجھا لوں گا
اپنی گہرائی میں مکمل ہوں
تیری اونچائیوں سے کیا لوں گا
روح اور بھی مری چمک جائے
تیرے زخموں کو ایسے پا لوں گا
سچ تو یہ ہے کہ سچ نہیں کچھ بھی
صرف افسانے کا مزا لوں گا
تم جو پا جاؤ راہ عشق وجےؔ
رفتہ رفتہ تمہیں میں پا لوں گا
غزل
در پہ تیرے جو سر جھکا لوں گا
وجے شرما عرش