EN हिंदी
در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں | شیح شیری
dar-o-diwar ki zad se nikalna chahta hun main

غزل

در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں

عرفانؔ صدیقی

;

در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں
ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں

وہ کہتے ہیں کہ آزادی اسیری کے برابر ہے
تو یوں سمجھو کہ زنجیریں بدلنا چاہتا ہوں میں

نمو کرنے کو ہے میرا لہو قاتل کے سینے سے
وہ چشمہ ہوں کہ پتھر سے ابلنا چاہتا ہوں میں

بلند و پست دنیا فیصلہ کرنے نہیں دیتی
کہ گرنا چاہتا ہوں یا سنبھلنا چاہتا ہوں میں

محبت میں ہوس کا سا مزا ملنا کہاں ممکن
وہ صرف اک روشنی ہے جس میں جلنا چاہتا ہوں میں