EN हिंदी
ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے | شیح شیری
Dar nahin thukte hain KHun jo dukh pae hue

غزل

ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے

رشید لکھنوی

;

ڈر نہیں تھوکتے ہیں خون جو دکھ پائے ہوئے
لخت دل بن کے نکل جائیں گے غم کھائے ہوئے

دم نکلنا ہے دل زار کا ہے حال اخیر
نالے آتے ہیں لبوں تک مرے گھبرائے ہوئے

یہ بہانہ ہے مرے قتل پہ راضی نہیں تیر
غل مچاتی ہے کماں ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے

ہم تو مر جائیں گے ہر گل پہ عدم میں بھی رشیدؔ
جاتے ہیں گلشن فانی کی ہوا کھائے ہوئے