EN हिंदी
ڈر موت کا نہ خوف کسی دیوتا کا تھا | شیح شیری
Dar maut ka na KHauf kisi dewta ka tha

غزل

ڈر موت کا نہ خوف کسی دیوتا کا تھا

وسیم مینائی

;

ڈر موت کا نہ خوف کسی دیوتا کا تھا
وہ فتح یاب یوں تھا کہ بندہ خدا کا تھا

پہلے بھی حادثات ہوئے زندگی کے ساتھ
لیکن جو آج دیکھا وہ منظر بلا کا تھا

لو وہ بھی گر گیا مرے آنگن کا پیڑ آج
ہر وقت جس سے آسرا تازہ ہوا کا تھا

سن کر جسے پہاڑوں کے سینے دہل گئے
یہ بھی کرشمہ دوستو اپنی صدا کا تھا

طوفاں سے بچ نکلنے کی صورت نہ تھی کوئی
یہ فیض میری ماں کے ہی دست دعا کا تھا

تم بھی بھلا دو ترک تعلق کا واقعہ
ہم بھی یہ سوچ لیں گے کہ جھونکا ہوا کا تھا

ساحل پہ لا کے آپ سفینے جلا دیے
یہ کام بھی وسیمؔ ہماری انا کا تھا