ڈر موت کا نہ خوف کسی دیوتا کا تھا
وہ فتح یاب یوں تھا کہ بندہ خدا کا تھا
پہلے بھی حادثات ہوئے زندگی کے ساتھ
لیکن جو آج دیکھا وہ منظر بلا کا تھا
لو وہ بھی گر گیا مرے آنگن کا پیڑ آج
ہر وقت جس سے آسرا تازہ ہوا کا تھا
سن کر جسے پہاڑوں کے سینے دہل گئے
یہ بھی کرشمہ دوستو اپنی صدا کا تھا
طوفاں سے بچ نکلنے کی صورت نہ تھی کوئی
یہ فیض میری ماں کے ہی دست دعا کا تھا
تم بھی بھلا دو ترک تعلق کا واقعہ
ہم بھی یہ سوچ لیں گے کہ جھونکا ہوا کا تھا
ساحل پہ لا کے آپ سفینے جلا دیے
یہ کام بھی وسیمؔ ہماری انا کا تھا

غزل
ڈر موت کا نہ خوف کسی دیوتا کا تھا
وسیم مینائی