EN हिंदी
در کسی کا کھلا نہیں لگتا | شیح شیری
dar kisi ka khula nahin lagta

غزل

در کسی کا کھلا نہیں لگتا

رفعت شمیم

;

در کسی کا کھلا نہیں لگتا
شہر یہ آشنا نہیں لگتا

غم ہے فکر معاش میں ایسا
آدمی کا پتا نہیں لگتا

دوست جب سے ہوئے ہمارے تم
کوئی دشمن برا نہیں لگتا

یوں تو ملتے ہیں ٹوٹ کر لیکن
ربط وہ دیر پا نہیں لگتا

وعدہ حوروں کا بعد مرنے کے
بندگی کا صلا نہیں لگتا