در کسی کا کھلا نہیں لگتا
شہر یہ آشنا نہیں لگتا
غم ہے فکر معاش میں ایسا
آدمی کا پتا نہیں لگتا
دوست جب سے ہوئے ہمارے تم
کوئی دشمن برا نہیں لگتا
یوں تو ملتے ہیں ٹوٹ کر لیکن
ربط وہ دیر پا نہیں لگتا
وعدہ حوروں کا بعد مرنے کے
بندگی کا صلا نہیں لگتا
غزل
در کسی کا کھلا نہیں لگتا
رفعت شمیم