EN हिंदी
در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا | شیح شیری
dar jo khola hai kabhi us se shanasai ka

غزل

در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا

راشد نور

;

در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا
ایک منظر نظر آیا مجھے تنہائی کا

اپنی آنکھیں نہ سجانا کسی دروازے پر
چشم حیراں کو بھروسہ نہیں بینائی کا

زخم آرائی میں سب زخم پرانے تھے مگر
زخم تازہ ہی رہا اس کی شناسائی کا

عرصۂ ہجر سے پھر وصل کی سرشاری تک
حوصلہ دل کو بہت چاہیئے پسپائی کا