در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا
ایک منظر نظر آیا مجھے تنہائی کا
اپنی آنکھیں نہ سجانا کسی دروازے پر
چشم حیراں کو بھروسہ نہیں بینائی کا
زخم آرائی میں سب زخم پرانے تھے مگر
زخم تازہ ہی رہا اس کی شناسائی کا
عرصۂ ہجر سے پھر وصل کی سرشاری تک
حوصلہ دل کو بہت چاہیئے پسپائی کا

غزل
در جو کھولا ہے کبھی اس سے شناسائی کا
راشد نور