EN हिंदी
در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں | شیح شیری
dar-e-shahi se dar-e-gadai pe aa gaya hun

غزل

در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں

علی مزمل

;

در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں
میں نرم بستر سے چارپائی پہ آ گیا ہوں

بدن کی ساری تمازتیں ماند پڑ رہی ہیں
وہ بے بسی ہے کہ پارسائی پہ آ گیا ہوں

نہیں ہے چہرے کا حال پڑھنے کی خو کسی میں
سکوت توڑا ہے لب کشائی پہ آ گیا ہوں

حصول گنج عطائے غیبی کے واسطے اب
صفات ربی کی جبہ سائی پہ آ گیا ہوں

اتار پھینکا مصالحت کا لباس میں نے
سکوت توڑا ہے لب کشائی پہ آ گیا ہوں

فتور مجھ میں نہیں ہے کوئی سبب تو ہوگا
دعائیں دیتا ہوا دہائی پہ آ گیا ہوں

علیؔ میں سبزے کو روندنے کی سزا کے باعث
برہنہ سر سے برہنہ پائی پہ آ گیا ہوں