در خزینۂ صد راز کھولتا ہے کوئی
نہ جانے کون ہے وہ مجھ میں بولتا ہے کوئی
عجب کرید عجب بیکلی سی ہے جیسے
مجھے مری رگ جاں تک ٹٹولتا ہے کوئی
ہجوم ہے مرے سینے میں ابر پاروں کا
گہر بکھیرنے والا ہوں رولتا ہے کوئی
حیات و مرگ و طلوع و غروب ہے دنیا
کہ پر سمیٹتا ہے کوئی تولتا ہے کوئی
ہوا کا لمس یہ بوندیں خنک خنک خورشیدؔ
مجھے تو آج فضاؤں میں گھولتا ہے کوئی

غزل
در خزینۂ صد راز کھولتا ہے کوئی
خورشید رضوی