در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر
ہم عجب لہر میں ہیں اپنے نئے گھر آ کر
جسے جانا ہی نہیں اپنے کناروں سے جدا
اسے دیکھا بھی نہیں موج سے باہر آ کر
آتش غم پہ نظر کی ہے کچھ ایسے کہ یہ آنچ
بات کر سکتی ہے اب مرے برابر آ کر
تو نے کس حرف کے آہنگ میں ڈھالا تھا مجھے
سانس بھی ٹوٹ رہا ہے سر محضر آ کر
اسے دیکھا تھا خط خواب کے اس پار کبھی
یہ ستارہ جو گرا ہے مرے اندر آ کر
اک صدا کوہ ندا سے کسی اپنے کی صدا
رونے لگ جاتی ہے اس دشت میں اکثر آ کر
شاخ تا شاخ عجب عالم وحشت ہے ابھی
طائر جاں کبھی ٹھہرا تھا مرے گھر آ کر

غزل
در امکاں سے گزر کر سر منظر آ کر
شاہین عباس