در فقیر پہ جو آئے وہ دعا لے جائے
دوائے درد کوئی درد لا دوا لے جائے
وصال یار کی اب صرف ایک صورت ہے
ہماری خاک اڑا کر وہاں ہوا لے جائے
تو جان جائے مرا دکھ جو تیرے پہلو سے
کوئی بھی آئے ترے دوست کو اٹھا لے جائے
کسی جزیرۂ نادیدہ کی طلب تھی ہمیں
اب اس پہ ہے کہ جہاں ہم کو ناخدا لے جائے
زمانہ ساز ہے فرتاشؔ اس کے کیا کہنے
کہ خود ہی قتل کرے اور خوں بہا لے جائے

غزل
در فقیر پہ جو آئے وہ دعا لے جائے
فرتاش سید