EN हिंदी
در آپ کا ہم چھوڑ کے اب جائیں کہاں اور | شیح شیری
dar aap ka hum chhoD ke ab jaen kahan aur

غزل

در آپ کا ہم چھوڑ کے اب جائیں کہاں اور

ماہر آروی

;

در آپ کا ہم چھوڑ کے اب جائیں کہاں اور
ہے ترک تعلق میں خود اپنا ہی زیاں اور

آسان اٹھانا نہ تھا کچھ بار خلافت
جز میرے اٹھاتا بھی کوئی بار گراں اور

دل ہے کہ کوئی چوب تر و تازہ و شاداب
جب آگ سلگتی ہے تو اٹھتا ہے دھواں اور

ہے فصل بہاراں میں چمن شعلہ بداماں
اب دیکھیے کیا ہوتا ہے انداز‌ خزاں اور

آزادیٔ گفتار و خیالات کا اظہار
بربادی کے اب اس سے بھی بڑھ کے ہیں نشاں اور

جب شیشۂ دل پر مرے زنگار ہے آتا
کیا کہئے چمکتا ہے مرا داغ نہاں اور

میں شاخ ثمر دار کے مانند ہوں ماہرؔ
ملتا ہوں کسی سے تو وہ کرتا ہے گماں اور