دمک اٹھی ہے فضا ماہتاب خواب کے ساتھ
دھڑک رہا ہے یہ دل کس رباب خواب کے ساتھ
ہٹے غبار جو لو سے تو میری جوت جگے
جلوں میں پھر سے نئی آب و تاب خواب کے ساتھ
ہے سو اداؤں سے عریاں فریب رنگ انا
برہنہ ہوتی ہے لیکن حجاب خواب کے ساتھ
تو کیوں سزا میں ہو تنہا گناہ گار کوئی
یہاں تو جیتے ہیں سب ارتکاب خواب کے ساتھ
شرار سنگ سے سنگلاخ ہو گئے تلوے
ہوا نہ کچھ دل خانہ خراب خواب کے ساتھ
سلائے رکھا ہمیں بھی فریب منزل نے
چلے تھے ہم بھی کسی ہمرکاب خواب کے ساتھ
سراغ ملتا نہیں پیاس کے سفینوں کا
بھنور بھی ہوتے ہیں شاید سراب خواب کے ساتھ
حقیقتوں کی چٹانوں پہ چل گیا جادو
لو وہ بھی چلنے لگیں اب سحاب خواب کے ساتھ
عجب نہیں وہی منظر نظارہ بن جائے
ڈرا رہا ہے یہ ڈر اضطراب خواب کے ساتھ
دراڑیں رہ گئیں بیداریوں کے نقشے پر
نہ ہم رہے نہ وہ تم انقلاب خواب کے ساتھ
نگاہ دیدۂ تعبیر کے حوالے خلشؔ
ہے یہ بیاض الگ انتخاب خواب کے ساتھ
غزل
دمک اٹھی ہے فضا ماہتاب خواب کے ساتھ
بدر عالم خلش