EN हिंदी
دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا | شیح شیری
damak raha tha bahut yun to pairahan us ka

غزل

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا

راجیندر منچندا بانی

;

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
ذرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا

وہ خاک اڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے
چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا

وہ جھوٹ سچ سے پرے رات کچھ سناتا تھا
دلوں میں راست اترتا گیا سخن اس کا

عجیب آب و ہوا کا وہ رہنے والا ہے
ملے گا خواب و خلا میں کہیں وطن اس کا

تری طرف سے نہ کیا کیا ستم ہوئے اس پر
میں جانتا ہوں بہت دوست بھی نہ بن اس کا

وہ روز شام سے شمعیں دھواں دھواں اس کی
وہ روز صبح اجالا کرن کرن اس کا

مری نظر میں ہے محفوظ آج بھی بانیؔ
بدن کسا ہوا ملبوس بے شکن اس کا