دم سادھ کے دیکھوں تجھے جھپکوں نہ پلک بھی
آنکھوں میں سمو لوں ترے لہجے کی دمک بھی
اے عشق اگر مجھ کو ترا اذن ہو ممکن
آغوش میں لے لوں ترے پیکر کی مہک بھی
اے ذکر مرے فکر کی تقدیر بدل دے
اے نور مرے نطق کے کاسے میں جھلک بھی
اے قطرۂ خوں مصحف رخسار پہ تل بن
اے سطر تپاں کاغذ سادہ پہ دہک بھی
دل عرض ہنر ہے تو بدن ارض ہنر ہے
اے میرے دل سادہ مرے تن میں دھڑک بھی
یہ رنگ مرے نور میں رکھے ہیں اسی نے
گندھوائی تھی جس نے مری مٹی کی مہک بھی
اس شہر کی جانب مرے پاؤں نہیں اٹھتے
اس دل سے وہی دور کرے گا یہ جھجک بھی
کیا میں نے کیا ہے کہ سزا وار ردا ہوں
مجھ کو تو بہت ہے تری کملی کی جھلک بھی
غزل
دم سادھ کے دیکھوں تجھے جھپکوں نہ پلک بھی
خالد احمد