دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
سخت حیراں ہوں میں اپنی سخت جانی دیکھ کر
شام سے تا صبح فرقت صبح سے تا شام ہجر
ہم چلے کیا کیا نہ لطف زندگانی دیکھ کر
یوں تو لاکھوں غمزدہ ہوں گے مگر اے آسماں
جب تجھے جانوں کہ لا دے میرا ثانی دیکھ کر
اب تپ فرقت سے یہ کچھ ضعف طاری ہے کہ آہ
دنگ رہ جاتی ہے ہم کو نا توانی دیکھ کر
واسطے جس کے ہوئے بحر فنا کے آشنا
وہ پسیجا بھی نہ اپنی جاں فشانی دیکھ کر
باز آ بیمارؔ اس کے عشق سے جانے بھی دے
ترس آتا ہے یہ تیری نوجوانی دیکھ کر
غزل
دم نہ نکلا یار کی نامہربانی دیکھ کر
شیخ علی بخش بیمار