EN हिंदी
دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں | شیح شیری
dam le ai kohkan ab tesha-zani KHub nahin

غزل

دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں

شاہ نصیر

;

دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
جان شیریں کو نہ کھو کوہ کنی خوب نہیں

ٹک تو ہنس بول یہ غنچہ دہنی خوب نہیں
رشک گل اتنی بھی ہاں کم سخنی خوب نہیں

سر پہ قمری کو بٹھایا تو ہے تو نے پر سرو
تیری آزاد وشی بے کفنی خوب نہیں

قابل چشم نمائی ہے تو اے طفل سرشک
ابتر اتنا بھی نہ ہو ناشدنی خوب نہیں

فصل گل آنے دے دکھلا نہ ابھی سے زنجیر
یہ روش موج نسیم چمنی خوب نہیں

منع ہنسنے سے تو کرتا نہیں اے برق وشو
پھر شرارت سے یہ چشمک زدنی خوب نہیں

ہو سکے تجھ سے تو کر مرغ چمن گل کا علاج
اس کو بیماری اعضا شکنی خوب نہیں

کوئی دم اور بھی اس ابروئے پر خم کو چھو
اصفہانی یہ ابھی تیغ بنی خوب نہیں

چشم سے اس کی نہ کر دعویٔ ہم چشمی دیکھ
کہ خطا ایسی غزال ختنی خوب نہیں

مار کھائے گا وہ خیاط کہ جس نے تیرے
بند جامے کے لیے ناگ پھنی خوب نہیں

منہ کو دیکھ اپنے تو اور اس کے لب لعل کو دیکھ
روکشی اس سے عقیق یمنی خوب نہیں

ترک چشم بت بدکیشں خیال اس کا چھوڑ
مرغ دل سہمے ہے ناوک فگنی خوب نہیں

شاخ گل ہے کہ کمر باد سے لچکے ہے تری
اے میاں اتنی بھی نازک بدنی خوب نہیں

میں بھی ہوں بادیہ پیمائے جنوں اے مجنوں
اس قدر آگے مرے لاف زنی خوب نہیں

چھلنی کانٹوں سے ہوئے گو مرے تلوے لیکن
دشت وحشت کی ابھی خاک چھنی خوب نہیں

زہر کھا جاؤں گا اے ساقیٔ پیمانہ بہ کف
باز آ جانے دے پیماں شکنی خوب نہیں