دم یار تا نزع بھر لیجئے
سخیؔ زندگی تک تو مر لیجئے
دیا دل تو کہنے لگے پھینک کر
کلیجہ میں اپنے یہ دھر لیجئے
مری لاغری پر تو ہنستے ہیں آپ
کمر کی تو اپنی خبر لیجئے
اجل آئے پیچھا چھٹتے شہر کا
کہیں چل کے جنگل میں گھر لیجئے
سخیؔ ہجر جاناں میں کھانا کہاں
غم و درد سے پیٹ بھر لیجئے
غزل
دم یار تا نزع بھر لیجئے
سخی لکھنوی