EN हिंदी
دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے | شیح شیری
dam-e-suKHan hi tabiat lahu lahu ki jae

غزل

دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے

عباس تابش

;

دم سخن ہی طبیعت لہو لہو کی جائے
کوئی تو ہو کہ تری جس سے گفتگو کی جائے

یہ نکتہ کٹتے شجر نے مجھے کیا تعلیم
کہ دکھ تو ملتے ہیں گر خواہش نمو کی جائے

کشیدہ کار ازل تجھ کو اعتراض تو نئیں
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کی جائے

میں یہ بھی چاہتا ہوں عشق کا نہ ہو الزام
میں یہ بھی چاہتا ہوں تیری آرزو کی جائے

محبتوں میں تو شجرے کا بھی نہیں مذکور
تو چاہتا ہے کہ مسلک پہ گفتگو کی جائے

مری طرح سے اجڑ کر بسائیں شہر سخن
جو نقل کرنی ہے میری تو ہو بہ ہو کی جائے