دم برق و باد ہوتا نفس شرار ہوتا
کسی رنگ سے تو جینا مجھے سازگار ہوتا
مجھے اس کی بے رخی کا بھی جو اعتبار ہوتا
میں دعا کو ہاتھ اٹھا کر نہ گناہ گار ہوتا
نہ بلا سے اشک تھمتے نہ دعا قبول ہوتی
میں خلوص بندگی سے تو نہ شرمسار ہوتا
وہ نقاب اٹھ بھی جاتا تو نظر کہاں سے لاتے
ترے روبرو بھی تیرا وہی انتظار ہوتا
غم دوستاں غنیمت ہے وطن سے دور ورنہ
مرے دل پہ کیا گزرتی جو مرا دیار ہوتا
مجھے شورؔ دے رہے ہیں وہ فریب تیز گامی
کہ جو دو قدم بھی چلتے تو نہ اعتبار ہوتا
غزل
دم برق و باد ہوتا نفس شرار ہوتا
منظور حسین شور