دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا
چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی
رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا
خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی
بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا
بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا
تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا
گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا
زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا
خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے
خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا
غزل
دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
شیر سنگھ ناز دہلوی