EN हिंदी
دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا | شیح شیری
dam-e-aKHir bhi humne zaban se kuchh na kaha

غزل

دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا

چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی
رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا

خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی
بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا

بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا
تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا

گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا
زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا

خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے
خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا