دم آخر یہ شکوہ کیا نہ کرتا
تمہیں بتلاؤ مرتا کیا نہ کرتا
سحر کی شام سے جوں شمع گریاں
جگر تھا آب روتا کیا نہ کرتا
اگر رہتا نہ چپ پیش نکیرین
میں کیا کرتا اکیلا کیا نہ کرتا
قضا کا ڈر نہ ہوتا گر بشر کو
خدا جانے یہ بندہ کیا نہ کرتا
زباں ہوتی جو گویا ہر صنم شادؔ
خداوندی کا دعویٰ کیا نہ کرتا
غزل
دم آخر یہ شکوہ کیا نہ کرتا
شاد لکھنوی