دم بخود ہم تو ڈرے بیٹھے ہیں
وہ حبابوں سے بھرے بیٹھے ہیں
قتل ہونے پہ مرے بیٹھے ہیں
سر ہتھیلی پہ دھرے بیٹھے ہیں
دل سے نزدیک ڈرے بیٹھے ہیں
دور خاطر سے ڈرے بیٹھے ہیں
وہ جواری ہیں جو نقد دل و جاں
عشق بازی میں ہرے بیٹھے ہیں
حال دل کیا کہیں ہم سوختہ جاں
مثل قلیاں وہ بھرے بیٹھے ہیں
یہ جہاں دیدہ ہیں وہ آہو چشم
اک زمانے کو چرے بیٹھے ہیں
قصر تن خاک ہو آ جائیں کہاں
گھر مٹا کر نگھرے بیٹھے ہیں
بت ہیں خاموش جو بت خانے میں
بخدا تجھ سے ڈرے بیٹھے ہیں
کر چکے جامۂ اصلی صد چاک
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
پھوٹ بہنے کو پھپھولوں کی طرح
اشک آنکھوں میں بھرے بیٹھے ہیں
جیتے جی مردہ دلی سے اے شادؔ
زندہ درگور مرے بیٹھے ہیں
غزل
دم بخود ہم تو ڈرے بیٹھے ہیں
شاد لکھنوی