دم بخود ہے چاندنی چپ چاپ ہیں اشجار بھی
آج کی شب تھم گئی کیوں وقت کی رفتار بھی
زیست کی ناؤ نہ جانے کس کنارے جا لگے
ملگجی سی دھند ہے اس پار بھی اس پار بھی
دل کی باتیں کہنے والے اور آہستہ ذرا
گوش بر آواز ہے کوئی پس دیوار بھی
آنسوؤں کا ابر وہ برسا کہ سب کچھ بہہ گیا
حسرتوں کے شہر بھی زخموں کے لالہ زار بھی
غزل
دم بخود ہے چاندنی چپ چاپ ہیں اشجار بھی
بشیر منذر