دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
سانس کیا لوں کہ ہوا دہر کی زہریلی ہے
بن گیا قطرۂ ناچیز ترقی سے گہر
ذات ہے ایک فقط نام کی تبدیلی ہے
لاگ نے جس کی مجھے پھونکا ہے اندر اندر
شمع اس آگ کی اک ہیئت تمثیلی ہے
مل کے مٹی تری چوکھٹ کی ہوا خاک سے پاک
جو لکیر اب مرے ماتھے کی ہے چمکیلی ہے
پھر اڑانا ہیں گریباں کے مجھی کو پرزے
ہاتھ بے کار ابھی تھے کی قبا سی لی ہے
آرزوؔ ہوگا یہ مقتل ہی عزا خانہ بھی
شفقی فرش زمیں کا ہے تو چھت نیلی ہے
غزل
دم بخود بیٹھ کے خود جیسے زباں گیلی ہے
آرزو لکھنوی