دم بہ دم تغیر کے رنگ ہیں زمانے میں
کچھ کمی نہیں آتی درد کے خزانے میں
غیر کی شکایت کیا شوق لذت غم سے
میں بھی ہو گیا شامل اپنا دل دکھانے میں
میرے چار جانب تھے خار زار نفرت کے
عمر کٹ گئی میری راستہ بنانے میں
وقت نے ان آنکھوں کے خواب ہی بدل ڈالے
دیر ہو گئی تجھ کو میرے پاس آنے میں
چیختے تھے ہم سایے اک عجیب لذت تھی
دھوپ میں کھڑے ہو کر آئنہ دکھانے میں
طائروں کو ایسی بھی کیا تھی عجلت پرواز
بھول کر چلے آئے خواب آشیانے میں
تھی ہوا بھی شوریدہ ہاتھ بھی تھے لرزیدہ
انگلیاں جلا ڈالیں اک دیا جلانے میں
دام اور قفس ٹھہرے قصہ ہائے پارینہ
قید کر دیا اس نے مجھ کو آب و دانے میں
بام و در فراستؔ اب کیا ہمیں خوشی دیں گے
زندگی بسر کر دی غم کے شامیانے میں
غزل
دم بہ دم تغیر کے رنگ ہیں زمانے میں
فراست رضوی