دم اجنبی صداؤں کا بھرتے ہو صاحبو
ہر لمحہ اپنی جاں سے گزرتے ہو صاحبو
کیا جانے کیا ہے بات کہ ہر سمت بھیڑ میں
اپنا ہی چہرہ دیکھ کے ڈرتے ہو صاحبو
تم بھی عجیب لوگ ہو کانٹوں کی راہ سے
کیسے لہولہان گزرتے ہو صاحبو
اک اجنبی سی آگ ہے جل کے اس میں آج
کس زندگی کی کھوج میں مرتے ہو صاحبو
کیا جانے کس گہر کی تمہیں جستجو ہے کیوں
دریاؤں میں لہو کے اترتے ہو صاحبو
اتنا بھی پھونک پھونک کے رکھتے نہیں قدم
اب کنج عافیت سے بھی ڈرتے ہو صاحبو
اب یہ زمین بھی نہ خلاؤں کی ہو شکار
کیوں اپنے آسماں سے اترے ہو صاحبو
غزل
دم اجنبی صداؤں کا بھرتے ہو صاحبو
شاہد احمد شعیب