دلیل کن ہے مگر درد لا دوا نکلی
یہ کائنات عجب حیرت آزما نکلی
یہ مانا سچ ہے کوئی غم سدا نہیں رہتا
خوشی ملی تھی تو وہ بھی گریز پا نکلی
ہوا کی طرح سے اڑ جاؤں گا جہاں بھی رہوں
پئے خبر قفس رنگ سے صدا نکلی
کہاں سے آئی ہوا اس اجاڑ منظر میں
جو گھر سے نکلی تو وہ بھی شکستہ پا نکلی
وہ نیم شب وہ رخ ماہتاب و ابر سیہ
شکستگی تھی کہ چشم فلک نما نکلی
وہ موج مے تھی جو چمکا گئی اداسی کو
کسی کی خندہ لبی بوئے آشنا نکلی
حیا کے ساتھ تقاضائے قہر و مہر بھی ہے
تری نظر سے طبیعت مری جدا نکلی
غزل
دلیل کن ہے مگر درد لا دوا نکلی
سید امین اشرف