دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
الاماں اے زلف عالمگیر سودا ہو گیا
گو پڑا رہتا ہوں آب اشک میں مثل حباب
سوزش دل سے مگر سب جسم چھالا ہو گیا
اے شہ خوباں تصور سے ترے رخسار کے
چشم کا پردا بعینہ لعل پردا ہو گیا
فرق رندان و ملائک اب بہت دشوار ہے
مے کدہ اس کے قدم سے روشن ایسا ہو گیا
دانۂ انگور اختر چاندنی مے ماہ جام
نثر طائر بط قرابا چرخ مینا ہو گیا
سنتے ہیں تائب ہوا اس بت کے گھر جانے سے تو
کیا ترا بیمارؔ پتھر کا کلیجا ہو گیا
غزل
دخل ہر دل میں ترا مثل سویدا ہو گیا
شیخ علی بخش بیمار