EN हिंदी
دہن میہمان میں کانٹے | شیح شیری
dahan-e-mehman mein kanTe

غزل

دہن میہمان میں کانٹے

مظفر علی سید

;

دہن میہمان میں کانٹے
پہلوئے میزبان میں کانٹے

خون تھوکے گا جو بھی کھائے گا
آپ کے خاص دان میں کانٹے

خوب روؤں کا کیا بھروسا ہے
آن میں پھول آن میں کانٹے

گل رخسار کی حفاظت کو
اس نے لٹکائے کان میں کانٹے

چبھ رہے ہیں مرے خیالوں کو
باغ‌ جنت نشان میں کانٹے

مسکراتی خموشیاں اس کی
میرے طرز بیان میں کانٹے

حسرتیں اور عجز‌ گویائی
دل میں کانٹے زبان میں کانٹے

ریت میں رل کے چل گئے جوہر
جوہری کی دکان میں کانٹے

راکشس بن گئے مہا جوگی
گیان میں اور دھیان میں کانٹے

کبھی ہوتی تھی ایڑیوں میں خلش
اب تو ہیں جسم و جان میں کانٹے

کتنا مشکل ہوا ہے رزق حلال
شوربے اور نان میں کانٹے

چننے والا کوئی نہیں سیدؔ
اور بھرے ہیں جہان میں کانٹے