داور حشر ذرا اور بڑھے بات کہ بس
مجھ سے کچھ اور بھی پوچھیں گے سوالات کہ بس
جس کو سن کر کبھی خوش ہوتے ہو ناراض کبھی
آپ فرمائیں کہ دہراؤں وہی بات کہ بس
کیا میں اب چھوڑ دوں یا رب یہیں امید کا ساتھ
کیا ابھی اور ٹھہر سکتی ہے یہ رات کہ بس
زندگی کیا اسی الجھن میں گزر جائے گی
کیا ابھی اور بھی بگڑیں گے یہ حالات کہ بس
یہ قیامت کی گھڑی سر سے ٹلے گی یا رب
ہیں دکھانے کو ابھی اور کمالات کہ بس

غزل
داور حشر ذرا اور بڑھے بات کہ بس
اوم کرشن راحت