دعوئ دید کیا جب کسی شیدائی نے
چار سو آگ چھڑک دی تری رعنائی نے
لاکھ دھوکے دئے رنگینی و رعنائی نے
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ترے شیدائی نے
ان مریضان محبت کی دوا ہے نہ دعا
کر دیا جن پہ کرم تیری مسیحائی نے
ڈوب کر دل نے کیا غرق سفینہ آخر
بحر الفت میں ڈبویا نہیں گہرائی نے
نقش پا ان کا مگر سر کو میسر نہ ہوا
در بہ در خوار کیا ذوق جبیں سائی نے
سنگ ہیں گہر گہر جن کی ضیا بخشی سے
بزم ہستی میں کچھ ایسے بھی تو ہیں آئینے
ہم نے دیکھا تو زمانے کی نظر اس پہ اٹھی
بھر دیا رنگ تماشے میں تماشائی نے
دیکھنے ہی نہ دیا ان کو رشیؔ محفل میں
کچھ تحیر نے کچھ اندیشۂ رسوائی نے
غزل
دعوئ دید کیا جب کسی شیدائی نے
رشی پٹیالوی