داستانوں میں ملے تھے داستاں رہ جائیں گے
عمر بوڑھی ہو تو ہو ہم نوجواں رہ جائیں گے
شام ہوتے ہی گھروں کو لوٹ جانا ہے ہمیں
ساحلوں پر صرف قدموں کے نشاں رہ جائیں گے
ہم کسی کے دل میں رہنا چاہتے تھے اس طرح
جس طرح اب گفتگو کے درمیاں رہ جائیں گے
خواب کو ہر خواب کی تعبیر ملتی ہے کہاں
کچھ خیال ایسے بھی ہیں جو رائیگاں رہ جائیں گے
کس نے سوچا تھا کہ رنگ و نور کی بارش کے بعد
ہم فقط بجھتے چراغوں کا دھواں رہ جائیں گے
زندگی بے نام رشتوں کے سوا کچھ بھی نہیں
جسم کس کے ساتھ ہوں گے دل کہاں رہ جائیں گے
غزل
داستانوں میں ملے تھے داستاں رہ جائیں گے
فاضل جمیلی